Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Ticker

6/recent/ticker-posts

انگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟



آج بادشاہ کی سالگرہ ہے اور مغل روایات کے مطابق انھیں تولا جانا ہے۔ اس موقعے پر برطانوی سفیر سر ٹامس رو بھی دربار میں موجود ہیں۔




تقریب پانی میں گھرے ایک چوکور چبوترے پر منعقد کی جا رہی ہے۔ چبوترے کے بیچوں بیچ ایک دیوہیکل طلائی ورق منڈھی ترازو نصب ہے۔ ایک پلڑے میں کئی ریشمی تھیلے رکھے ہوئے ہیں، دوسرے میں خود چوتھے مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر احتیاط سے سوار ہوئے۔

بھاری لبادوں، تاج اور زر و جواہر سمیت شہنشاہ جہانگیر کا وزن تقریباً ڈھائی سو پاؤنڈ نکلا۔ ایک پلڑے میں ظلِ الٰہی متمکن رہے، دوسرے میں رکھے ریشمی تھیلے باری باری تبدیل کیے جاتے رہے۔ پہلے مغل بادشاہ کو چاندی کے سکوں سے تولا گیا، جو فوراً ہی غریبوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اس کے بعد سونے کی باری آئی، پھر جواہرات، بعد میں ریشم، اور آخر میں دوسری بیش قیمت اجناس سے بادشاہ سلامت کے وزن کا تقابل کیا گیا۔

یہ وہ منظر ہے جو آج سے تقریباً ٹھیک چار سو سال قبل مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر سر ٹامس رو نے دیکھا اور اپنی ڈائری میں قلم بند کر لیا۔ تاہم دولت کے اس خیرہ کن مظاہرے نے سر ٹامس کو شک میں ڈال دیا کہ کیا بند تھیلے واقعی ہیرے جواہرات یا سونے سے بھرے ہوئے ہیں، کہیں ان میں پتھر تو نہیں؟

سوال یہ ہے کہ ایک دور دراز کے چھوٹے سے جزیرے پر مشتمل ملک کا سفیر اس وقت ہندوستان میں کیا کر رہا تھا؟



                                            انگلستان کے ساتھ معاہدہ ’شان کے خلاف‘


دراصل سر ٹامس ایک خاص مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح جہانگیر سے ایک معاہدے پر دستخط کروا لیں جس کے تحت ایک چھوٹی سی برطانوی کمپنی کو ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل ہو جائیں۔


لیکن جیسا کہ سر ٹامس کی طویل ڈائری سے پتہ چلتا ہے، یہ کام اتنا آسان نہیں ثابت ہوا اور اس سلسلے میں محنتی انگریز سفیر کو سخت پاپڑ بیلنا پڑے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغل شہنشاہ پوری دنیا میں صرف ایران کے صفوی بادشاہ اور عثمانی خلیفہ کو اپنا مدِ مقابل سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں انگلستان ایک چھوٹا سا بےوقعت جزیرہ تھا، اس کے کسی معمولی بادشاہ کے ساتھ برابری کی سطح پر معاہدہ کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔

تاہم سر ٹامس نے ہمت نہیں ہاری، اور وہ تین سال کی ان تھک محنت، سفارتی داؤ پیچ اور تحفے تحائف دے کر جہانگیر سے تو نہیں، البتہ ولی عہد شاہجہان سے آج سے ٹھیک چار سو برس قبل اگست 1618 میں ایک معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گئے جس کے تحت اس کمپنی کو سورت میں کھل کر کاروبار کرنے کا اجازت مل گئی۔

اس کمپنی کا نام ایسٹ انڈیا کمپنی تھا اور یہ واقعہ اس کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مغل حکومت نے براہِ راست ایک یورپی ملک کے ساتھ باقاعدہ تجارتی معاہدہ کر کے اس کی ایک کمپنی کو مراعات دی تھیں اور یوں اسے ہندوستان میں قدم جمانے کا پروانہ مل گیا تھا۔

یہ کچھ ایسا ہی واقعہ تھا جیسے مشہور کہانی کے اونٹ کو بدّو نے اپنے خیمے میں سر داخل کرنے کی اجازت دے دی تھی!

سر ٹامس رو کو جہانگیر کے ساتھ دوسرے پلڑے میں تلنے والی دولت پر یقین کرنے میں حیرت ہوئی تھی، لیکن ان کے طے کردہ معاہدے کے نتیجے میں برطانیہ اگلے ساڑھے تین سو برسوں میں ہندوستان سے جو دولت سمیٹ کر لے گیا، اس کے بارے میں ماہرینِ معاشیات نے کچھ تخمینے لگانے کی کوشش ضرور کی ہے۔

اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے ہندوستان پر اقتدار کے دوسرے اثرات کیا مرتب ہوئے جو محض دولت لٹنے سے کہیں زیادہ بھیانک تھے۔

                                                                 تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی
امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ نے 'دا گریٹ بُک آف ہاریبل تھنگز' کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے تاریخ کی ایک سو بدترین سفاکیوں کا جائزہ پیش کیا ہے جن کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کتاب میں تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی برطانوی دور میں ہندوستان میں آنے والے قحط ہیں جن میں وائٹ کے مطابق دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔


اس تعداد میں وائٹ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال میں آنے والے قحط کو شمار نہیں کیا جس میں 30 سے 50 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔



اگر اس قحط کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانیہ کی براہِ راست حکومت کے دوران تین کروڑ کے قریب ہندوستانی قحط کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔


ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زرخیز خطوں میں ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے، پھر اتنے لوگ کیوں بھوکوں مر گئے؟

وائٹ نے ان قحطوں کی وجہ 'تجارتی استحصال' (commercial exploitation) قرار دی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے ہم صرف ایک قحط کا ذکر کرتے ہیں جو 1769 میں بنگال ہی میں آیا تھا۔

نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیہ سین نے اس قحط میں ہونے والی اموات کی تعداد ایک کروڑ بتائی ہے۔ اس دور کا ایک منظر ایک انگریز ہی کی زبانی دیکھیے:

'دسیوں لاکھ لوگ چند بقیہ ہفتوں تک زندہ رہنے کی آس لیے مر گئے جو انھیں فصل تیار ہونے تک گزارنے تھے۔ ان کی آنکھیں ان فصلوں کو تکتی رہ گئیں جنھیں اس وقت پکنا تھا جب انھیں بہت دیر ہو جاتی۔'

                                                                  شاندار فصل کے اندر ڈھانچے
فصلیں تو اپنے وقت پر تیار ہوئیں لیکن اس وقت تک واقعی بہت دیر ہو چکی تھی۔ 1769 کی یہی کہانی پونے دو سو سال بعد ایک بار پھر مشرقی بنگال میں دہرائی گئی۔ ٹائمز آف انڈیا اخبار کا 16 نومبر 1943 کا تراشہ:

'مشرقی بنگال میں ایک ہولناک مگر عام منظر یہ تھا کہ نصف صدی کی سب سے شاندار فصل کے دوران پڑا ہوا گلا سڑا کوئی انسانی ڈھانچہ نظر آ جاتا تھا۔'

ساحر لدھیانوی نے اس قحط پر نظم لکھی تھی، جس کے دو شعر:

پچاس لاکھ فسُردہ، گلے سڑے ڈھانچے / نظامِ زر کے خِلاف احتجاج کرتے ہیں

خموش ہونٹوں سے، دَم توڑتی نگاہوں سے / بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

قحط تو قدرتی آفات کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیا قصور؟ مشہور فلسفی ول ڈیورانٹ اس بارے میں لکھتے ہیں:

'ہندوستان میں آنے والے خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ اس قدر بےرحمانہ استحصال، اجناس کی غیرمتوازن درآمد اور عین قحط کے دوران ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہوتے کسان انھیں ادا نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ حکومت مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی۔'

ایک چھوٹی سی کمپنی اتنی طاقتور کیسے ہو گئی کہ ہزاروں میل دور کسی ملک میں کروڑوں لوگ کی زندگیوں اور موت پر قادر ہو جائے؟

اس کے لیے ہمیں تاریخ کے چند مزید صفحے پلٹا ہوں گے۔

1498 میں پرتگیزی مہم جو واسکو ڈے گاما نے افریقہ کے جنوبی کونے سے راستہ ڈھونڈ کر ہندوستان کو سمندری راستے کے ذریعے یورپ سے منسلک کر دیا تھا۔ آنے والے عشروں کے دوران دھونس، دھمکی اور دنگا فساد کے حربے استعمال کر کے پرتگیزی بحرِ ہند کی تمام تر تجارت پر قابض ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پرتگال کی قسمت کا سورج نصف آسمان پر جگمگانے لگا۔


ان کی دیکھا دیکھی ولندیزی بھی اپنے توپ بردار بحری جہاز لے کے بحرِ ہند میں آ دھمکے اور دونوں ملکوں کے درمیان جوتم پیزار ہونے لگی۔




انگلستان یہ سارا کھیل بڑے غور سے دیکھ رہا تھا، بھلا وہ اس دوڑ میں کیوں پیچھے رہ جاتا؟ چنانچہ ملکہ الزبیتھ نے ان دو ملکوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دسمبر 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کروا کر اسے ایشیا کے ملکوں کے ساتھ بلاشرکتِ غیرے تجارت کا اجازت نامہ جاری کر دیا۔

لیکن انگریزوں نے ایک کام کیا جو ان سے پہلے آنے والے دو یورپی ملکوں سے نہیں ہو سکتا تھا۔ انھوں نے صرف جنگ آمیز تجارت پر ساری توانائیاں صرف نہیں کیں بلکہ سفارت کاری پر بھی بھرپور توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ٹامس رو جیسے منجھے ہوئے سفارت کار کو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے بند دروازے کھول دے۔

مغلوں کی طرف سے پروانہ ملنے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے مختلف ساحلی شہروں میں ایک کے بعد ایک تجارتی اڈے قائم کرنا شروع کر دیے جنھیں فیکٹریاں کہا جاتا تھا۔ ان فیکٹریوں سے انھوں نے مصالحہ جات، ریشم اور دوسری مصنوعات کی تجارت شروع کر دی جس میں انھیں زبردست فائدہ تو ہوتا رہا، لیکن جلد ہی معاملہ محض تجارت سے آگے بڑھ گیا۔

جوڑ توڑ
چونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی دوسرے یورپی ملکوں سے اکثر جنگیں چلتی رہتی تھیں اور یہ ایک دوسرے کا مال لوٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے، اس لیے انگریزوں نے اپنی فیکٹریوں میں بڑی تعداد میں مقامی سپاہی بھرتی کرنے شروع کر دیے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ یہ فیکٹریاں پھیل کر قلعوں اور چھاؤنیوں کی شکل اختیار کرنے لگیں۔

جب کمپنی کی فوجی اور مالی حالت مضبوط ہوئی تو اس کے اہلکار مقامی ریاستوں کے آپسی لڑائی جھگڑوں میں ملوث ہونے لگے۔ کسی راجے کو سپاہیوں کے دستے بھجوا دیے، کسی نواب کو اپنے حریف کو زیر کرنے کے لیے توپیں دے دیں، تو کسی کو سخت ضرورت کے وقت پیسہ ادھار دے دیا۔ اس جوڑ توڑ کے ذریعے انھوں نے رفتہ رفتہ اپنے پنجے ساحلی علاقوں سے دور تک پھیلا دیے۔

مسلسل پھیلاؤ کے اس سفر میں سب سے اہم موڑ 1757 میں لڑی جانے والی جنگِ پلاسی ہے، جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک کلرک رابرٹ کلائیو کے تین ہزار سپاہیوں نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کی 50 ہزار فوج کو شکست دے دی۔

کیسے شکست دی، یہ کہانی مطالعۂ پاکستان کی کتاب میں درج ہے، بس اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ یاد رکھیے کہ جنگ کے بعد کلائیو نے سراج الدولہ کا صدیوں کا جمع کردہ خزانہ سمندری جہازوں میں لدوا کر بالکل اسی طرح لندن پہنچا دیا جس طرح 18 سال قبل نادر شاہ دہلی کی دولت دونوں ہاتھوں سے نچوڑ کر ایران لے گیا تھا۔



Post a Comment

0 Comments